01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 24
آں چست
از روز میری
قسط نمبر24
"بات بگڑی ،،،،،، ہے اس قدر
دل ہے ٹوٹا،،،،،، ٹوٹے ہیں ہم
تیرے بن اب نا لیں گے اک بھی دم
تجھے کتنا چاہیں اور ہم"۔
💔
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے احد اپنے بال جیل سے سیٹ کر رہا تھا۔ ہاتھ بالوں میں چلت پھرت کر رہے تھے اور لبوں پہ گانے کے چند بول رقصاں تھے۔
احد کی آواز میں درد تھا جو اسکی دلی کیفیت کو فاش کر رہا تھا۔ چہرے پہ پراسرار سا سکون تھا اور آنکھوں میں بےرنگ موتی یکلخت اتر آئے تھے۔
"یہ میری آنکھوں میں آنسو کیسے؟؟"۔ خیال جاتے ہی احد نے آنکھ سے گرتے آنسو کو حیرت سے دیکھا جو ڈریسنگ ٹیبل پہ چمک رہا تھا۔
برش جگہ پہ رکھتے احد سائیڈ ٹیبل کی طرف آیا جہاں مشائم کا فوٹو فریم رکھا تھا۔ فوٹو فریم پہ نظر جاتے ہی احد کے دل کی دھڑکن لمحہ بھر کو ساکن ہوئی۔
"ایسا کیوں لگتا ہے کہ اس تصویر سے پرانی شناسائی ہے"۔ احد کچھ پل مبہوت اس فوٹو فریم کو گھورتا رہا اگلے ہی لمحے احد کی آنکھیں طیش سے پھٹی رہ گئیں اور چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ غصے کی زیادتی پہ اسنے فوٹو فریم سائیڈ ٹیبل سے اٹھا کر فرش پہ پٹخا جس کے کانچ فرش پہ جابجا کرچی کرچی ہو کر منتشر ہو گئے۔ برہنہ پیر فرش پہ کھڑے ہونے کے سبب احد کا بائیاں پیر زخمی ہو چکا تھا لیکن اسے اس بات کا احساس تک نا ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سلیپرز پہنے احد تیزی میں سیڑھیاں اترتا ہال میں پہنچا اور اطراف کا جائزہ لیا۔
"احد تم کہاں جا رہے ہو؟؟"۔ احد کو انٹرنس کی طرف جاتا دیکھا حرا نے سوال کیا جسکے پیر کا پریکچر اب مکمل ٹھیک ہو چکا تھا اور پلاستر بھی اتر چکا تھا۔
حرا کے سوال پہ احد کی پیشانی پہ ناگواری کی ایک شکن ابھری پھر ہولے سے حرا کی جانب گھوما۔
"میری بھابی ہو نا تو بھابی بن کے رہو میری بیوی یا ماں بننے کی کاوش نا کرو تم"۔ احد کی آنکھیں غصے سے لال پڑ رہیں تھیں۔
"احد یہ کیا طریقہ ہے اپنی بھابی سے بات کرنے کا؟"۔ شہریار جو بلاوساطت اپنے روم سے نکل کر اس طرف آیا تھا' جھنجھلا کر بولا۔
"تمھاری کمی تھی"۔ احد نے چڑ کر کہا۔
"شہریار پلیز آپ چپ کر جائیں"۔ حرا شہریار کی طرف بڑھی۔
حرا جو اس بدتمیزی کے پیچھے کا سبب بخوبی جانتی تھی' ہمت کرتے احد کے قریب آئی۔
"احد تمھارے پیر پہ چوٹ کیسے لگی؟؟"۔ یکلخت حرا کی نظر احد کے پاوں پر گئی جہاں خون رستے اب جم چکا تھا۔ "احد تم میری بات سن رہے ہو نا؟؟"۔ جواب موصول نا ہونے پہ حرا نے دھیرے سے ہمت کرتے اسکا دائیاں دوش جھنجوڑا۔
"ہ ہ ہاں"۔ احد کی زبان میں لکنت پیدا ہوئی۔
"تمھارے پیر پہ چوٹ لگی ہے اس پہ مرہم لگا لو"۔ پاوں کی طرف اشارہ کرتے حرا نے کہا۔
"ہاں بھابی یہ تو واقعی چوٹ ہے لیکن یہ لگی کیسے؟؟"۔ احد نے چہرہ جھکائے پاوں کی طرف دیکھا اور سوچ میں پڑ گیا۔ احد جو کچھ پل پہلے بدتمیزی پہ اتر آیا تھا اب جیسے فی الفور ہی نارمل ہوا' حرا یہ دیکھ کر متعجب رہ گئی' احد کی اس حرکت نے اسے سوچنے پہ آمادہ کیا۔
"تم بیٹھو میں میڈی لے کر آتی ہوں' شہریار آپ میرے ساتھ آئیں ضروری بات کرنی ہے"۔ احد کے بعد شہریار کو مخاطب کرتے وہ کچن کی طرف بڑھی۔
احد بھی ہال میں صوفے پہ بیٹھ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد کی حقیقت خود پہ آشکار ہو جانے کے بعد شہریار اپنے ٹیبل کی طرف پرسوچ قدم رکھ رہا تھا۔
اسکی سوچ کا ایک ہی مرکز تھا اور وہ تھا احد جو ان دنوں دو خاندانوں کے مابین اہم مسئلہ تھا۔
"آپ سچ بول رہی ہیں؟ کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔ بس میں جلدی سے اپنا کام ختم کرتا ہوں اور آپکی طرف آتا ہوں' اپنا اور گڑیا کا خیال رکھیئے گا' بائے"۔
شہریار کی حس سامعہ سے دائیں جانب سے آواز ٹکڑائی جو کہ اسکے کولیگ کم دوست کی آواز تھی۔ قدموں کی حرکت کو تھامتے شہریار اسکے ٹیبل کے قریب آیا۔
"کیا ہوا کامران؟ تم اتنا خوش ہو یقینا کوئی بہت بڑی وجہ ہے؟"۔ مقابل کھڑے نفوس کے چہرے پہ اودھم مچاتی خوشی کے تاثرات بھانپتے شہریار نے اندازہ لگایا۔
"ہاں شہریار بات ہی خوشی کی ہے"۔ کامران نے تاثرات نارمل کیئے۔
"کیا بات ہے؟؟"۔ شہریار نے تجسس سے کہا۔
"تم تو جانتے ہو کہ ہم لوگ تین بھائی ہیں اور ہماری اکلوتی بہن ہے؟"۔ کامران نے تصدیق کرنے کے سے انداز میں کہا۔
"ہاں میں اچھے سے جانتا ہوں"۔
"شہریار میری بہن بہت خوبصورت ہے، بہت حسین۔ یونیورسٹی میں ڈی فام کی سٹوڈنٹ تھی دوسرے سال کے دوران ہی اسکی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ عجیب عجیب بیہیو کرتی کبھی غصہ کرنے لگ جاتی اور اچانک ہنسی خوشی سبکے ساتھ باتیں کرنے لگ جاتی تھی۔ ہمیں پتہ چلا کہ اسکے ساتھ آسیب ہے ہم لوگوں نے بہت کوشش کی کہ اپنی بہن کو اس سے محفوظ رکھ سکیں مگر ہماری تمام تر کاوشیں رائیگاں گئیں"۔ کامران نے تفصیل دینا شروع کی۔
"پھر؟ پھر کیا ہوا؟؟"۔ احد کے ساتھ پیش آئے سانحے کو یاد کرتے شہریار نے دل آویزی سے پوچھا۔
"تین سال یونہی گزر گئے شہریار لیکن کچھ حل نا نکل سکا آخر ایک دوست نے پٹڑیاٹا والے پیر کا بتایا کہ انکے پاس ہر آسیب کا علاج ہے۔ پہلے تو ہمیں اس بات پہ یقین نہیں آیا مگر اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ فیملی کے باہمی مشورے سے ماما پاپا اسے پیر صاحب کے پاس لے گئے اور تم یقین مانو ابھی ماما کی کال آئی تھی وہ بتا رہی تھیں کہ ہماری مہرو بالکل ٹھیک ہو گئی ہے"۔ خوشی کی زیادتی پہ کامران کی آنکھ سے آنسو جاری ہوئے۔ "شکر ہے اس پاک ذات کا کہ اسنے میری بہن کی زندگی بچا لی"۔
"اللہ کا کرم ہے کامران کہ اسنے تمھاری بہن کی زندگی بخش دی اب وہ پہلے جیسی ہو گئی ہے ویسے کامران تمھارے پاس ان پیر صاحب کا ایڈریس یا نمبر تو ہوگا"۔ بولتے ہی اسنے مزید کہا۔
"ہاں ہے نا میرے پاس انکا ایڈریس بھی ہے اور نمبر بھی"۔ ذہن پہ ہلکا سا دباو ڈالتے کامران نے جواب دیا۔
"تو کیا تم مجھے انکا ایڈریس اور نمبر دے سکتے ہو پلیز؟؟"۔ شہریار نے التجا کرتے کہا۔
"ہاں کیوں نہیں میں ابھی تمھیں سینڈ کرتا ہوں"۔ کامران نے پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر شہریار کے نمبر پہ میسج کیا جو اسے چند ہی لمحوں میں موصول ہو گیا تھا۔
"تھینک یو سو مچ کامران"۔ شہریار نے پرمسرت انداز میں اسکا شکریہ ادا کیا۔
"کوئی بات نہیں شہریار"۔ کامران نے خوش کن لہجے میں کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ماما پاپا آپ لوگوں کیلیئے ایک خوش خبری ہے"۔ شہریار' سمعان صاحب اور راضیہ بیگم کے روم میں داخل ہوکر پرتپاک انداز میں کہنے لگا۔
"خوش خبری؟ کیسی خوش خبری شہریار؟"۔ راضیہ بیگم جو وارڈ روب کے پاس کھڑی تھیں' شہریار کی آواز پہ اس طرف آئیں۔
"کہو شہریار کیا بات ہے؟؟"۔ سمعان صاحب جو بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے' اب سیدھے ہوئے۔
"ماما پاپا اب ہمارا احد بھی بالکل پہلے کی طرح ہنسی خوشی اور نارمل لائف گزارے گا"۔ بیڈ کے قریب آتے شہریار نے کہا۔
"کیا واقعی؟ تم سچ بول رہے ہو شہریار؟"۔ راضیہ بیگم کو اپنی سماعت پہ یقین نا آیا تھا۔
"جی ماما انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا"۔
"ذرا کھل کر بتاو شہریار آخر ماجرا کیا ہے؟؟"۔ سمعان صاحب نے اشتیاق سے پوچھا۔
"پاپا میرے کولیگ کامران نے ایک پیر صاحب کا ایڈریس اور فون نمبر دیا ہے وہ پیر بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ کامران کی بہن کے ساتھ بھی آسیب کا سایہ تھا لیکن پیر صاحب کی بدولت وہ نارمل ہو چکی ہے اب اسے آسیب سے کوئی خطرہ نہیں ہے نا ہی وہ سایہ اسکے ساتھ۔ ہم کل احد کو بھی وہاں لے چلیں گے اللہ نے چاہا تو ہمارا احد بھی بالکل ٹھیک ہو جائے گا پہلے ہی طرح"۔ شہریار کے لب خوشی کے مارے ہنسنے لگے تھے۔
"انشاءاللہ شہریار ایسا ہی ہوگا"۔ راضیہ بیگم نے اسکی تائید کی۔
"تمھیں پختہ یقین ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ شاہ صاحب بھی اس سفر میں ناکام لوٹ آئے تھے"۔ سمعان صاحب نے تصدیق چاہی۔
"جی پاپا مجھے یقین ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں ایسا ہی ہوگا"۔ شہریار نے اعتقاد سے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"شہلا تم بزی تو نہیں ہو؟"۔ عمارہ بیگم نے گیسٹ روم میں داخل ہوکر سامنے بیڈ پہ بیٹھی شہلا بیگم کو مخاطب کیا۔
"نہیں آپا' آئیے"۔ شہلا جو کپڑے سمیٹ رہی تھی' نے جھکا سر اٹھایا۔ "آپا کوئی بات کرنی ہے؟"۔ عمارہ بیگم خاموشی سے شہلا بیگم کے برابر آ بیٹھی تھیں جب شہلا بیگم نے کنفرم کیا۔
"ہاں شہلا وہ سمعان بھائی اور راضیہ کی کال آئی تھی وہ بول رہے تھے کہ آپ دو چار دن اور رک جائیں ممکن ہے جس مقصد کیلئے آپ پاکستان آئی ہیں وہ پورا ہو جائے"۔ عمارہ بیگم نے مدعا بیان کیا۔
"مطلب یہ کہ احد اور مشائم کی شادی؟؟؟"۔ شہلا بیگم نے کنفرم کیا۔
"ہاں شہلا احد اور مشی کی شادی' میں تو چاہتی ہوں بس اللہ میری بچی کے نصیب اچھے کرے اور مزید کوئی دکھ نا دکھائے"۔ عمارہ بیگم کا دل جیسے برسوں بعد مطمئن ہوا تھا۔
"آمین"۔ شہلا بیگم نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد بیٹا تم تیار نہیں ہوئے ابھی تک؟"۔ احد کے روم میں داخل ہوتے ہی راضیہ بیگم نے دھیرے سے احد کو مخاطب کیا جو بیڈ پہ بیٹھا جھک کر جوتے پہن رہا تھا۔
"جی ماما تیار ہوں"۔ احد بھی سیدھا ہو کر راضیہ بیگم کے قریب آیا۔ "چلیں"۔
احد راضیہ بیگم کے ہمقدم روم سے نکل کر سیڑھیاں اترتے ہال میں پہنچا جہاں سمعان صاحب اور شہریار اسی کے منتظر تھے۔
"حرا میں نے آنٹی کو کال کر کے بلا لیا ہے وہ تمھارے ساتھ رکیں گیں' اپنا خاص خیال رکھنا انشاءاللہ ہم جلدی اور کامیاب لوٹ آئیں گے"۔ حرا کے قریب آتے شہریار نے ہولے سے کہا۔
"شہریار دھیان رکھیئے گا اس بات کا کہ احد کو اس بات کا علم نا ہو کہ آپ لوگ اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں اور اس سے رعب و دبدبے سے بات نا کیجیئے گا بلکہ پیار سے قائل کرنے کی کاوش کیجیئے گا۔ ایسا نا ہو معاملہ سنگین صورت اختیار کر جائے"۔ حرا نے باور کراتے کہا۔
"تم بے فکر رہو ایسا کچھ نہیں ہوگا"۔ شہریار نے تسلی دی۔
"ٹھیک ہے حرا بیٹا اپنا بہت دھیان رکھنا"۔ حرا کے قریب آتے راضیہ بیگم نے اسے پیار کیا۔
"جی آنٹی آپ پریشان نا ہوں"۔ حرا نے خوش کن لہجے میں کہا۔
"چلیں راضیہ بیگم دیر ہو رہی ہے"۔ سمعان صاحب بولتے ہی انٹرنس کی طرف بڑھے۔ سمعان صاحب کے متعاقب احد' شہریار اور راضیہ بیگم بھی انٹرنس سے نکل گئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پٹڑیاٹا کی اونچی نیچی سڑکیں پار کرتے انہوں نے اپنی کار ڈھلوان کے سائیڈ پہ بنی پارکنگ میں پارک کی اور کار سے اتر کر بائیں جانب رخ کیا۔ تھوڑا دور جا کر وہ ایک گھر پہ پہنچے جو درمیانے لوگوں کی خواہشات اور بساط کو مد نظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا تھا۔ گھر کا گیٹ کھلا تھا اور لوگوں کی آمد و رفت لگی تھی۔
"ماما ہم یہ کہاں آئے ہیں؟؟"۔ احد کا ذہن الجھا۔
"احد بیٹا ہم تمھارے پاپا کے دوست سے ملنے آئے ہیں"۔ راضیہ بیگم نے فورا سے الفاظ کے ہیر پھیر سے کام لیا۔
"تو ماما انکے گھر کوئی موت ہوئی ہے یا کوئی دعوت؟ اتنے سارے لوگ کیوں ہیں یہاں؟؟"۔ احد کا ذہن مزید ہزار سوچوں میں گرفتار ہوا۔
"احد بات دراصل یہ ہے کہ انکا حلقہ احباب بہت وسیع ہے اس وجہ سے یہاں لوگوں کی خاصی گہما گہمی ہے"۔ شہریار نے بات سنبھالنے کی کاوش کی۔
"اندر چلتے ہیں' آو احد"۔ احد کو شانوں کے گرد بازو حائل کرتے سمعان صاحب اندر کی طرف بڑھے۔
راضیہ بیگم اور شہریار انکے عقب میں تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"بنو کی سہیلی ،،، ریشم کی ڈوری
اڑ اڑ کے شرمائے ،،، دیکھے چوری چوری
یہ مانے یا نا مانے میں تو اس پہ مر گیا
یہ لڑکی ہائے اللہ ،،، ہائے ہائے ای اللہ"۔
لان میں مشائم کے مقابل چیئر پہ بیٹھے فروا سامنے رکھا ٹیبل بجا کر گلا پھاڑے اپنی بےسری آواز میں گنگنا رہی تھی۔
زہرہ' جو اسکے دائیں ہاتھ پہ بیٹھی تھی اور مشائم کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔
"مشی یہ میراثن کس خوشی میں بلائی گئی ہے؟"۔ جبار نے انکے قریب آتے شرارت سے کہا جس پہ فروا نے عتاب میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ زبان کی حرکت کو روکا۔
"جبار بھائی آپ میں تمیز نام کی کوئی چیز ہے؟"۔ چہرہ اٹھائے فروا نے تپ کر کہا۔
"نہیں"۔ جبار نے جلی پہ تیل ڈالا۔
"تو آپ یہاں سے جا سکتے ہیں"۔ جبار کے لبوں سے امڈتی ہنسی دیکھتے فروا مزید چڑ گئی تھی۔
"کیوں جاوں میں یہاں سے؟ تم اپنی بےسری آواز میں گانا بند کرو۔ اب یوں چلا چلا کر ہمارے کان کھانے سے تم احد بھائی کا مقابلہ تو کرنے سے رہی"۔ جبار ہنوز شرارت کے موڈ میں تھا کیونکہ اسنے فروا کی دکھتی رگ پکڑ لی تھی۔
"ویسے جبار بالکل ٹھیک بول رہا ہے فروا۔ احد اور مشائم کی شادی ہے' احد ایک راکسٹار ہے ہم اپنا گلا کیوں پھاڑیں بھئی؟ اپنی انرجی کیوں ویسٹ کریں؟ گانا ہے تو احد گائے نا"۔ زہرہ نے فروا کی سائیڈ لیتے کہا۔
"بات میں دم ہے زہرہ آپی"۔ جبار نے زہرہ کی حمایت کی۔
"یہ کیا بات ہوئی احد گانا نہیں گائے گا"۔ مشائم نے دانستہ احد کی سائیڈ لی۔
"لو بھئی کر لو گل' ہماری لڑکی تو فارغ ہو چکی"۔ جبار نے مشائم کا رخ کیا۔ "مس مشائم اگر احد گانا نہیں گائے گا تو کیا طبلہ بجائے گا؟؟"۔ جبار کے ساتھ سبکا یکجا قہقہ گونجا۔ سوائے مشائم کے جو کچھ پل دانستہ سنجیدہ رہنے کے بعد ہنس دی۔